(علامہ اقبال رح کی روح سے معذرت کے ساتھ – پرندے کی فریاد کی بحر میں)
ڈاکٹر انوارالحق
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ فرعونی انداز ، وہ نمرودی چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب حکومت کی
جھوٹے کیسز بنانا، جیلوں میں ٹھونسنا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتی ہے یاد جس دم
فارن فنڈنگ، توشہ کھانا اور کشمیر بیچنا
محسنوں کو ڈسنا، ان سب کا مذاق اڑانا
آباد تھا سازشوں سے منی گالہ کا آشیانہ
آتی نہیں فریاد مظلوں کی میرے محل میں
جکڑا ہوا ہوں، ہوتی رہائی کاش بس میں
بدنصیب ہوں اسکے فیض کو ترس رہا ہوں
دھرنے، نیب، سب کے لئیے تڑپ رہا ہوں
آیا سیلاب، میں کرسی کے لیے مررہا ہوں
اندھیروں میں گھرا قسمت کو رو رہا ہوں
اس حالت میں ابلیس دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے اسی حالت میں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے اقتدار چھٹا ہے یہ حال ہوگیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھارہا ہے
ملک دیوالیہ کرنے کی پوری سعی کی تھی
مکمل نہ کرسکتے کی فریاد ہے، صدا ہے
پھر مجھے گود میں لے، کاندھے پر بٹھا
بربادی تمام کرنے میں میرا ساتھ دے