Copy
کرتارپور گردوارہ پراجیکٹ میں ایک ارب پینسٹھ کروڑ کی خردبرد کرنے پر ڈپٹی کمشنر نارووال نبیلہ عرفان کا ڈی جی فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن میجر جنرل کمال اظفر کے نام مذمتی خطتئیس دسمبر 2021
آفس ڈپٹی کمشنر
جوڈیشل کمپلیکس
شکر گڑھ روڈ
نارووال 51600
پنجاب
اسلامی جمہوریہُ پاکستان
کمال صاحب،
کمال کرتے ہیں کہ پبلک اکاوُنٹس کمیٹی کے چئیرمین ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین چیخ چیخ کر تھک گئے کہ کرتارپور پراجیکٹ کی اقتصادی تفصیلات آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو مہیا کی جائیں اور آپ ساڑھے آٹھ ارب روپے کی خطیر سرکاری رقم کا حساب دینے کی جگہ اسے سٹیریٹیجک اہمیت کا منصوبہ قرار دیکر آڈٹ کروانے سے پہلی رات کی دلہن کی مانند ہچکچا رہے ہیں اور الٹا مصر ہیں کہ پیپرا رولز کا اطلاق ایف ڈبلیو او پر نہیں ہونا چائیے۔یہ تو بالکل وہی بات ہو گئی کہ جب سپریم کورٹ نے ائیر فورس کے کراچی میں بنائے فالکن مال کو گرانے کا عندیہ دیا تو آپ کے پیٹی بھائیوں نے اسے “سٹریٹیجک اہمیت ” کے ائیر فورس وار کالج میں تبدیل کر دیا چہاں چوڑیوں کے کاوُنٹر کے آگے جی ڈی پائلٹس کو انبالہ ائیر بیس کی دفاعی اہمیت سمجھائی جائیگی۔میرے چچا بریگیڈئر ابتسام کاظمی آرمی سے ریٹائرڈ ہیں اور میں خوب سمجھتی ہوں کہ سٹیریٹیجک لفظ سٹیریٹیجک سے زیادہ کرپشن چھپانے کی غرض سے آپ کے یہاں مستعمل ہے۔جب یہ بات میرے علم میں آئی تو میں نے ضلع نارووال کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے اپنے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریوینیو ڈاکٹر شعیب سلیم کو کرتارپور بھیجا کہ وہ سٹیٹڈ کوسٹ کا دستیاب سہولیات اور تعمیراتی معیار سے میچ کریں اور کل رات انھوں نے مجھے جو رپورٹ سبمٹ کی ہے اسے پڑھ کر میں نہ صرف دنگ رہ گئی بلکہ شرمندگی سے اپنا سر بھی جھکا لیا۔آندھی چلنے پر کرتارپور میں گنبد نیچے گر جاتا ہے۔ستونوں کی گہرائی اٹھارہ فٹ کی جگہ ساڑھے گیارہ فٹ ہے اور سات ہزار سکوائر فٹ ڈبل سٹوری کنسٹرکشن کے لئے سات لاکھ سیمنٹ کی بوریوں کے پیسے لیکر چار لاکھ انتیس ہزار بوریاں استعمال کی گئیں اور درجہُ اول کی اینٹ کے پیسے وصول کر کے شکر گڑھ میں چوہدری مختار کے بھٹے سے درجہُ دوم کی اینٹ استعمال کی گئی ہے۔آئے دن سنگ مرمر کی ٹائلز اکھڑتی ہیں اور پارکنگ کی سڑک میں آپ کی زیرانتظام موٹر وے کی طرح گڑھے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔اسی طرح بغیر کسی ٹینڈر کے پراجیکٹ کے انتظام و انصرام کا ٹھیکہ آپ نے بریگیڈئر(ر) یوسف مرزا کی بولی سے تین دن قبل بنی کمپنی گلوبل نوبل کو ایوارڈ کر دیا اور کم از کم قومی خزانے کو ایک ارب پینسٹھ کروڑ چھپن لاکھ پچاس ہزار سات سو بانوے روپے(Rs 1655650792) کا نقصان نہیں پہنچایا بلکہ سیدھا سیدھا ڈاکا ڈالا ہے ہے جس کی میں واشگاف الفاظ میں مذمت کرتی ہوں۔
میں اس خط کی کاپیاں صدر،وزیراعظم،وزیراعلیٰ،چیف سیکرٹری،چئیرمین نیب،ڈی جی ایف آئی اے اور چئیرمین پبلک اکاوُنٹس کمیٹی کے علاوہ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی اور پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کو اس لئے نہیں بھیج رہی کہ وہ اس ملٹری سٹیٹ میں آپ کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں بلکہ اس لئے بھیج رہی ہوں کہ کل جب موُرخ تاریخ لکھے تو مجھے آپ کے برعکس پاکستان کی غیرتمند اولاد میں شمار کرے۔سویلین سیٹ اپ بھلے آپ کا کچھ بگاڑ نہ پائے مگر جب اس خط کی کاپیاں واشنگٹن پوسٹ،نیویارک ٹائمز،انڈیا ٹوڈے اور اسلام آباد کے تمام سفارتکاروں کو پہنچیں گی تو کم از کم فیوچر فارن فنڈنگ ان پراجیکٹس کے لئے دستیاب نہیں ہو گی جن کو ایف ڈبلیو او جیسا کرپٹ ادارہ ہینڈل کر رہا ہو گا اور یہی نبیلہ عرفان کی جیت ہو گی۔
آپ میری ٹرانسفر کروا سکتے ہیں مجھے ٹرمینیٹ کروا سکتے ہیں مگر میں ویسے بھی کینیڈا کی امیگریشن حاصل کر چکی ہوں لہذا میں اس گلے سڑے نظام کا حصہ بننے کی جگہ عاشر عظیم کی طرح ٹورنٹو میں بیٹھ کر آپ کی سیاہ کاریوں کا پردہ چاک کرتی رہوں گی۔وردی پہن کر آپ پر چئیرمین ایف ڈبلیو او کی حیثیت سے اعتماد کی دوہری ذمہ داری عائد ہوتی تھی مگر شاید کاکول کے پانی میں ہی نمک حرامی ہے کہ جس کا کھاوُ اسی تھالی میں چھید کرو اور آپ ایوب خان،یحیٰ خان،امیر عبداللہ خان نیازی،ضیالحق،پرویز مشرف،احمد شجاع پاشا،اشفاق پرویز کیانی،قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید سے چنداں مختلف نہیں نکلے مگر یاد رکھئے کہ تاریخ کا پہیہ بہت بے رحم ہے۔پاکستانی قوم نہ صرف دن بہ دن آپ کی اور آپ کے ادارے کی مالیاتی کرپشن اور سیاسی و اقتصادی سیاہ کاریوں سے نہ صرف باخبر ہو رہی ہے بلکہ ببانگ دہل کراہت کا اظہار بھی کر رہی ہے ابھی کل کی بات ہے کہ میں نے اپنے ڈرائیور نور ولی سے پوچھا کہ کہاں کے رہنے والے ہو تو اس نے جواب دیا میڈم میں مقبوضہ اوکاڑہ کا رہنے والا ہوں اور میرے کسان باپ کو آرمی نے اپنی زمین پر قبضے پر احتجاج کرنے پر سٹریٹ فائرنگ کر کے 1997 میں قتل کر دیا تھا آپ کے اس دبیا میں عبرتناک انجام کی شدت سے منتظر ہیں نبیلہ عرفان