طالبان کا دور حکومت- اوریا جان مقبول کی تحریر

طالبان کا وہ قافلہ جو 24جون 1994ء کو فساد زدہ افغانستان میں امن قائم کرنے کا پرچم لے کر چلا تھا، پوری دنیا اس کی پیش قدمیوں پر گواہ ہے کہ سپن بولدک کی گیارہ نومبر 1994ء کی پہلی لڑائی کے بعد قندھارایئر پورٹ صرف دس منٹ کے قلیل عرصے میں حاصل کر لیا گیا تھا اور 13نومبر 1994ء کو گورنر قندھار ملا نقیب نے تمام سپاہیوں سمیت یہ شہر بغیر ایک قطرۂ خون بہائے طالبان کے نامزد کردہ گورنر مولوی عبد السلام کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پہلی دفعہ پوری دنیا میں طالبان کا نام گونجا تھا۔ میں کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں شریک تھا، جس میں پاکستان کی “خفیہ” اور “ظاہر” دونوں ایجنسیوں کے نمائندے بھی تھے اور سب ایک دوسرے سے سوال کرتے پھرتے تھے کہ یہ “طالبان عجوبہ ” (phenomenon)کیا ہے۔ میں نے ملا محمد عمرؒ کا تھوڑا سا تعارف کروایا تو کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب اسے ایک افسانہ قرار دیتے تھے۔ قندھار اور اسکے گرد و نواح میں ملا محمد عمرؒ نے ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست قائم کرکے دکھائی تواس کی شہرت نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے سرحدی اضلاع میں بھی خوشبو کی طرح پھیلنے لگی۔ ہر وہ شخص جو پاکستانی پولیس، کسٹمز، پٹواری اور دیگر سرکاری محکموں کے دست درازوں سے تنگ آتا تو پکار اٹھتا، “اللہ کرے یہاں طالبان آجائیں “۔عالم یہ ہوگیا تھا کہ لوگ اپنے مقدمات کا فیصلہ کروانے طالبان کے پاس جانے لگے تھے۔ جان محمد دشتی کوئٹہ میں ڈپٹی کمشنر تھا، ایک دن میں اس کے دفتر میں گیا تو وہاں بیٹھے کچھ لوگ ایک درخواست کر رہے تھے کہ چار لوگوں نے ہمارے اتنے کروڑ افغانی اور ایک موٹرسائیکل دینا تھی، ہم نے چاروں کو پکڑ کو قانون کے حوالے کیا، دو کو پولیس والوں نے پیسے لے کر چھوڑ دیا اور دو کی سیشن جج نے ضمانت کردی۔ ان میں سے دو افراد بھاگ کر قندھار چلے گئے۔ ہم مقدمہ لے کر وہاں گئے۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوا، انہوں نے آدھی رقم اور موٹرسائیکل واپس کردی اور کہا آدھی رقم باقی دو افراد کے پاس ہے۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے ہماری یہ درخواست ہے کہ باقی دو افراد کو پکڑ کر ہمارے حوالے کرے تاکہ ہم انہیں قندھارلے جاکر طالبان سے اپنا فیصلہ کروائیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں اس پورے خطے کی بدلتی صورت حال کا عکس تھا، کیونکہ روزانہ ہر شہر میں ایسے واقعات ہو رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فروری 1995ء میں طالبان مجاہد ہیلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ بھر ان کا بھرپور استقبال ہوا۔ صرف دریائے رود کے کچکی ڈیم پر کمانڈر غفار اور کمانڈر نسیم سے انکی لڑائی ہوئی۔ وہ دونوں کمانڈر بھی عوامی مقبولیت کے ڈر سے بھیس بدل کرسپاہیوں کو طالبان کی طرح کالی پگڑیاں پہنا کر لائے تھے۔ لیکن ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئے۔اس فتح کے بعد نیمروز، فراہ، ہرات اور باغدیس صوبوں پر اسماعیل تورن خان کا اقتدار تھا۔ اس علاقے کو معمولی جنگوں اور مزاحمتوں کے بعد 3نومبر 1995ء تک فتح کر لیا گیا۔ زابل، ارژگان اور وردگ سے ہوتے ہوئے 27ستمبر 1996ء کو طالبان معمولی سی مزاحمت کے بعد کابل میں داخل ہوگئے۔ یہی وہ دن تھا جب پوری دنیا آن واحد میں طالبان حکومت کے خلاف متحد ہوگئی۔ اسلامو فوبیا تو بہت بعد کی بات ہے، سب سے پہلے “طالبان فوبیا” ہی تھا جس سے مغرب اور مسلمان حکمران دونوں بیک وقت خوفزدہ ہوئے تھے۔ پڑوسی ممالک، بھارت، ایران، تاجکستان اور ازبکستان میں تو ایسے تھا جیسے ایمرجنسی نافذ ہو گئی ہو۔ افغانستان میں صرف پانچ فیصد علاقہ ایسا تھا جس پر طالبان کا کنٹرول نہیں تھا۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s