ترکی پر یہودیوں کا قبضہ کیسے ہوا! اور پھر دو نمے یہودیوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا!

لال۔ بیگ (کاکروچ) ، چوہے اور اسطرح کے حشرات الارض تاریکی میں کام کرتے ہیں ۔ روشنی انکے لئے زہر ہوتی ہے- اسی طرح چور اور ڈاکو خفیہ کام کرتے ہیں؛ اکثر بھیس بدل کر! صیہونی یہودی جو غیر یہودیوں کو بولنے والا جانور قرار دیتے ہیں اور انکے خلاف ہر طرح کے جرائم کو جائز قرار دیتے ہیں ، ہمیشہ خفیہ تنظیموں سے کام لیتے ہیں مثلاً فری میسنز، روٹری کلب، لائنز کلب، قادیانی اور بہائی وغیرہ، ترکی میں یہ خفیہ افراد دو نمے کہلاتے ہیں یعنی دو نام والے، یہ اندر سے پکے یہودی ہوتے ہیں اور اوپر سے انکے مسلم نام ہوتے ہیں- اسکی ایک واضح مثال کمال اتا ترک تھا جسکی ماں پکی یونانی یہودن تھی)

ڈرامہ ارطغرل دیکھنے والوں کو اسکا بھی علم ھونا چاھئے۔
جب مصطفی کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا تو آل عثمان كو راتوں رات گھریلو لباس ہی میں یورپ بھیج دیا گیا

شاہی خاندان (ملکہ اور شہزادوں) نے التجا کی کہ یورپ کیوں؟ ہمیں اردن، مصر یا شام کسى عرب علاقے ہی ميں بھیج دیا جائے لیکن صہیونی آقاؤں کی احکامات ت واضح تھیں،

اپنی آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنا ان کو آخری درجے ذلیل کرنا مقصود تھا،

چناں چہ کسی کو یونان میں یہودیوں کے مسکن سالونیک اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا، اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحید الدین اور ان کی اہلیہ کو راتوں رات فرانس بھیج دیا گیا

اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئیں یہاں تک کہ گھریلو لباس میں خالی جیب اس حال میں انھیں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک ان کے پاس نہ تھی،

کہا جاتا ہے کہ سلطان وحید الدین کے شہزادے منھ چھپا کر پیرس کی گلیوں میں کاسۂ گدائی لیے پھرتے تھے کہ کوئی انھیں پہچان نہ پائے،

پھر جب سلطان کی وفات ہوئی تو کلیسا ان کی میت کو کسی کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوا کیونکہ دکانداروں کا قرض ان پر چڑھا ہوا تھا،

بالآخر مسلمانوں نے چندہ کرکے سلطان کا قرض ادا کیا اور ان کی میت کو شام روانہ کیا اور وہاں وہ سپرد خاک ہوئے۔

بیس سال بعد جنھوں نے سب سے پہلے ان کے بارے میں دریافت کیا اور ان کی خبرگیری کی وہ تركى كے پہلے منتخب وزیر اعظم عدنان مندریس تھے،

شاہی خاندان کی تلاش کے لیے وہ فرانس گئے اور وہاں جاکر ان کے احوال وکوائف انھوں نے معلوم کیے، پیرس کے سفر ميں وہ کہتے تھے کہ مجھے
میرے آباء کا پتہ بتاؤ مجھے میری ماؤں سے ملاؤ، بالآخر وہ پیرس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ

سلطان عبد الحمید کی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اور ان کی بیٹی ساٹھ سالہ شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہیں،

یہ دیکھ کر مندریس اپنے آنسو روک نہ سکے اور زار وقطار رو پڑے، پھر ان کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے: مجھے معاف کیجیے مجھے معاف کیجیے! شہزادی عائشہ نے پوچھا :آپ کون ہیں؟

کہا: میں ترک وزیر اعظم عدنان مندریس ہوں،اتنا سننا تھا کہ وہ بول اٹھیں: اب تک کہاں تھے؟ اور خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑیں،

عدنان مندریس جب انقرہ واپس گئے تو انہوں نے کمال اتا ترک کے دوست اور اس وقت کے ترکی کے صدر جلال بیار سے کہا کہ ميں آل عثمان کے لیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں، اور اپنی ماؤں کو واپس لانا چاہتا ہوں، بیار نے شروع میں تو اعتراض کیا،

مگر مندریس کے مسلسل اصرار پر صرف عورتوں کو واپس لانے کی اجازت دی، پھر عدنان مندریس خود فرانس گئے اور ملکہ شفیقہ اور شہزادی عائشہ دونوں کو فرانس سے ترکی لے آئے،

مگر شہزادوں کے لیے معافی نامہ جاری کرکے ان کو اپنے وطن عزیز ترکی لانے کا سہرا مرحوم اربکان کے سر جاتا ہے جب وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔

پھر جب مندریس پر جھوٹا مقدمہ چلا کر ان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو منجملہ الزامات کے ساتھ ساتھ دو الزام یہ بھی تھے کہ
1۔ انہوں نے 30 سال بعد ترکی میں عربی زبان میں اذان دینے کی اجازت دی جسے کمال اتا ترک اور اسکے ساتھیوں نے ترکی میں بند کر دیا تھا۔
2۔ انھوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے سلطان کی اہلیہ اور بیٹی پر خرچ کیا ہے، اس لیے کہ وہ ہر عید کے موقع پر ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کے لیے جاتے، ان کے ہاتھ چومتے، اور اپنی جیب خاص اور اپنے ذاتی صرفے سے ۱۰ ہزار لیرہ سالانہ شہزادی عائشه اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔

جب ۱۷ ستمبر ۱۹٦١ کو عدنان مندریس اور ان کے 4 ساتھیوں کو ملٹری کورٹ نے شہید کیا تو دوسرے ہی دن دونوں (ملکہ اور شہزادی) کی بھی بحالت سجود وفات ہوئی۔
یہ سلوک ہے ھمارے نام نہاد سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ، نہ کوئی مروت نہ شرافت، نہ صلہ رحمی، نہ قرابت داری، نہ اخلاق کا پاس نہ قدروں کا لحاظ!

یہ جو قومیت اور وطنیت کا راگ الاپتے رھے اور نعرےلگا لگا کر جن کی زبانیں نہیں رکھتی تھیں ان کا مقصد بجز اس کے اور کیا تھا کہ اسلامی اخوت سے لوگوں کا رشتہ کاٹ دیا جائے اور اس مقدس رشتے کے تانے بانے کو بکھیر کر اس کو ایسے جاہلی رشتوں میں تبدیل کیا جائے جن میں احترام ذات مفقود ہے اور حرمتوں اور انسانی رشتوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔

روئے زمین پر موجود شیطان کے چیلوں سے کبھی بے خبر نہ رہنا! اور ہاں یہ قصے بچوں کو سلانے کے نہیں بلکہ سوتوں کو جگانے اور جواں مردوں کو کمربستہ کرنے کے لیے ہیں!

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

(عربی سے ترجمہ : ابو فاتح ندوی)
***********************************+*********+

میرا (ڈاکٹر انوارالحق کا) تبصرہ

سلطان عبدالحمید کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے رحم کھا کر یہودیوں کو ترکی میں بسنے کی اجازت دی تھی۔ یہ انکی بہت بڑی غلطی تھی کہ وہ دھوکے میں آگئے اور یہودیوں کے مکر و فریب کو نہ سمجھ سکے، یہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرآن مجید سے کتنے دور تھے- قرآن مجید میں یہودیوں کے مکر اور ذہنیت کو اللہ تعالی نے بالکل کھول کھول کر سامنے رکھ دیا ہے؛ بالکل اسی طرح ہماری قوم یہودی کٹھ پتلی عمران نیازی سے بیوقوف بنی- یہودیوں نے آتے ہی ترکی میں جگہ جگہ فری میسنز کلب بنائے اور اسمیں عورتیں اور شراب کے ذریعے ترکی فوج کے اعلی افسران کو اپنا گرویدہ بنایا حتی کہ فوج نے سلطان عبدالحمید کا تختہ الٹ دیا اور گرفتار کرکے فری میسنز لاج میں گرفتار رکھا – “مصطفی کمال” درحقیقت ایک یونانی یہودی ماں کا بیٹا تھا جسکا مسلم نام زینب تھا- یہ دو نمے تھی یعنی دو نام والی، اندر سے یہودی اور باہر سے مسلم۔ مصطفی کمال (اتا ترک) بھی اپنی ماں کی طرح دو نمے تھا- وہ شراب اور عورتوں کا رسیا تھا اور اسکا انتقال جنسی بیماری سفلس سے ہوا- امت مسلمہ کے مخلص لیڈروں کو قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کرنا اور پھانسیاں دینا یہودیوں اور اُنکی کٹھ پتلیوُں کا عام رویہ ہے- ہمارے ہاں بیوقوفوں کی کمی نہیں ہے جو انکے چکروں میں آجاتے ہیں – وہ بالعموم اپنے ذاتی معاملات میں بھی خوف خدا اور اللہ سے تعلق نہ ہونے کی بناء پر بے ایمان ہوتے ہیں- اس بیماری کا علاج صرف قرآن اور صاحب قرآن ص ہیں

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s