تلوار یا ترانے

جب اودھ کے آخری فرمانروانواب واجد علی شاہ جانِ عالم اختر پیا کی ریاست ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہڑپ کی تو انھوں نے آخری بار دربار سجا کے اپنی ہی تیار کردہ ٹھمری، ‘مورا نیہر چھوٹا جائے’ پہ رقص کیا تھا۔ اس موقعے پہ موجود سب درباری اشک بار تھے اور خاموش بھی۔

یوں تو نواب صاحب ابو المظفر ناصرالدین سکندر جاہ بادشاہ عادل قیصر زماں سلطان وغیرہ جیسے عالیشان القابات بھی استعمال کرتے تھے۔ لیکن جب پوری ریاست کمپنی نے “ضم”کر لی تو مقابلے کےبجائے، زندگی کے بقیہ سال مٹیا برج کلکتہ میں بیٹھ کر اپیلیں کرتے رہے۔”برطانوی پارلیمنٹ کمپنی کی ناانصافی کا نوٹس لے، ملکہ اس کھلی دھاندلی کا نوٹس لے”۔
اُس وقت تک “عالمی برادری” نامی کوئی چیز مارکیٹ میں نہیں آئی تھی ورنہ وہ دل کے سہارے کے لیے اُس سے بھی درجنوں اپیلیں ضرور کرتے۔

نواب جان عالم پیا کی ساری جدوجہد کا وہی نتیجہ نکلا، جو مقابلے کے بجائے اپیلیں کرنے والوں کا مقدر ہوتا ہے، یعنی رسوائی۔ البتہ وہ ہر سال لکھنو کی یاد میں ٹھمریاں اور راگ جاری کرتے رہے۔ جو آج بھی اُن کے مجموعہ کلام “حزن اختر” کا حصہ ہیں۔ اُنہوں نے دل کو تسلی دینے کے لیے کلکتہ کے مٹیا برج کے مختلف حصوں کو لکھنو کے محلوں کے نام بھی دے رکھے تھے۔

نواب صاحب تو اپیلیں کرتے،سالانہ ٹھمریاں بناتے ہی گزر گئے۔ لیکن بعد میں ان کی ملکہ حضرت محل نے کمپنی کے خلاف تلوار اٹھائی، لوگوں کو منظم کیا اور جان توڑ کر لڑیں۔شکست کھا گئیں۔

نواب اور ملکہ دونوں نے جلا وطنی میں ہی موت کا منہ دیکھا۔ لیکن نواب واجد علی شاہ کو تاریخ میں بزدلی، بے حمیتی اور رسوائی کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ ملکہ حضرت محل، جرات، بہادری اور غیرت کا استعارہ ہیں۔

ثابت ہوا، وقت کا دھارا تبدیل نہ بھی ہوسکے، تب بھی عمل اور رویے تاریخ میں فرد یا قوم کے مقام کا تعین ضرور کر دیتے ہیں۔

کشمیر اور لکھنو کی اتفاقیہ مماثلت پر ہم معذرت خواہ ہیں۔

مہتاب عزیز خان

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s