وہ طلباء میں بیحد مقبول تھا۔ وہ ریاضی پڑھاتا تو خوشگواری سے اسے طالبعلموں کے ذہنوں میں اتارتا چلا جاتا۔ یہ اس کی پہلی وجہ شہرت تھی۔ وہ سٹوڈنٹس کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہتا۔ طالبعلم اس میں اپنائیت محسوس کرتے۔ اس سے اپنی ضروریات ڈسکس کرتے اور وہ انہیں مایوس نہیں کرتا تھا۔ وہ ایک بہترین مصور بھی تھا۔ وہ خوبصورت فن پارے بناتا، ان سے لطف اندوز ہوتا اور روزمرہ کی زندگی گزارتا۔ یہ سلسلہ ایسے ہی رواں تھا کہ اچانک کہیں کھو گیا۔ یہ 5 جون 2012 کا دن تھا۔
دو ہزار سولہ میں حزب المجاہدین کے مقبول ترین کماندار برہان وانی کی شہادت ہوئی تو مقبوضہ وادی میں مزاحمت کی ایک تازہ اور بھرپور لہر نے جنم لیا۔ حزب کے لیے برہان جیسا گوریلا لیڈر کا متبادل لیڈر پیدا کرنا نہیں تھا۔ایسے میں حزب کی کمان نوجوان فریڈم فائیٹر سبزار بھٹ کے ہاتھ میں آئی۔ سبزار بھٹ برہان وانی کا جان نثار ساتھی تھا۔ اس نے برہان کا سفر جاری رکھا۔ سبزار بھٹ نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں مزاحمت کے جزبات کو ابھار اور انہیں تحریک کا حصہ بنانا شروع کر دیا۔ 2017 میں سبزار بٹ بھی ایک اِن کاونٹر میں پندرہ گھنٹے لڑنے کے بعد دھرتی پر جان وار گیا۔ اس کے بعد حزب کے آپریشنل کمانڈر اعلی تربیت یافتہ اور تجربہ کار عسکریت پسند بیالیس سالہ یاسین یاتو بنے۔ انہیں ساتھی مجاہد الیاس محمود غزنوی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ انہوں نے ذمہ داریوں کا آغاز کیا تھا کہ حزب کے چوٹی کے جنگجو اور برہان کے ساتھی ذاکر رشید بھٹ المعروف ذاکر موسی نے دیگر عسکریت پسند تنظیموں سے روابط بڑھانے کا آغاز کیا۔ ان میں مبینہ طور پر القاعدہ سے بھی باہمی بتعاون کے رابطے شامل تھے۔ ذاکر موسی برصغیر میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کیا۔ اس بیان پر حزب میں پھوٹ پڑی اور ذاکر موسی نے انصار غزاوات الہند نامی تنظیم بنائی۔
حزب کے آپریشنل کماندار یاتو عرف محمود غزنوی نے حزب المجاہدین کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی اور کشمیر کی آزادی کی تحریک کو کسی عالمی عسکریت پسندانہ تنظیم کے زیر اثر جانے سے روکے رکھا۔ یاتو نے 1997 میں مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ متعدد بار گرفتار ہوئے اور رہائی پانے کے بعد پھر سے تنظیم سے منسلک ہو گئے۔ اگست 2017 میں غزنوی اپنے تین ساتھیوں سمیت شوپئیاں مقابلے میں شہید ہو گئے۔
5 جون 2012 کو جنوبی کشمیر کے قصبے بیگپورہ سے غائب ہونے والے ریاض نائیکو اگست 2017 میں خبروں میں ابھر کر سامنے آئے جب یاتو کی شہادت پر حزب نے انہیں آپریشنل کمانڈر بنانے کا اعلان کیا۔ ان کا نیا نام محمد بن قاسم تھا۔ اونتی پورہ کے علاقے بیگپورہ میں کپڑے سینے کا کام کرنے والے اسداللہ نائیکو کے گھر جنم لینے والا ریاض نائیکو مقامی اسکول میں ریاضی پڑھاتا تھا۔ یہ صلاحیتوں سے مالامال نوجوان تھا۔ یہ قابض فورسز کی طرف سے ہراساں کرنے پر انتقاماً حزب میں شامل ہوا تھا۔اس نے حزب کے آپسی گروہی اختلافات دور کروائے اور متحد ہو کر بھرپور گوریلا کاروائیوں کا آغاز کیا۔ یہ سوشل میڈیا کے ذریعے تبلیغ کرتا، پرجوش تقاریر کرتا اور متاثر کن بیانات جاری کرتا۔ نوجون اس کی باتوں سے متاثر ہوتے اور حزب میں شمولیت اختیار کرتے۔
نائیکو نے حزب کے سافٹ امیج کو ابھارا۔ اس نے کشمیری پنڈتوں کو کشمیر میں خوش آمدید کہا اور امرناتھ مندر کی کی زیارت کے لیے آنے والے یاتریوں کو اپنا مہمان قرار دیا۔ 2018 میں اس نے سیکورٹی فورسز کی صفوں میں تہلکہ مچا دیا۔ قابض دستے اس کے 70 سالہ ضعیف والد کو پکڑ کر لے گئے اور جواباً اس نے جموں کشمیر پولیس کے افسران کے خاندان کے درجن بھر افراد اٹھا لیے۔ سیکورٹی فورسز کو اس کے سامنے جُھکنا پڑا اور اس کے والد کو رہا کیا گیا اور بدلے میں اس نے بھی قیدی بنائے گئے خاندان چھوڑ دیے۔
تینتیس سالہ ریاض نائیکو عرف محمد بن قاسم برہان کے بعد مزاحمت کا دوسرا بڑا نام بن کر سامنے آیا تھا۔ یہ متعدد بار سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آیا مگر گھیرا توڑ کر نکلنے میں کامیاب رہا۔ یہ فوجی دستوں میں چھلاوہ مشہور ہو چکا تھا۔ نائیکو مقامی لوگوں میں مقبول تھا۔ لوگ اسے پناہ دیتے، اس کی مدد کرتے اور کسی خطرے کی صورت میں اس کی ڈھال بن کر سامنے آتے۔
بدھ کے روز بھارتی قابض فورسز،پیرا ملٹری اور پولیس کی بھاری نفری نے اچانک جنوبی کشمیر کے علاقے اونتی پورہ کو گھیر لیا۔ انہیں انٹیلیجنس اطلاعات تھیں کہ حزب کا کمانڈر نائیکو اپنے خاندان کو ملنے اس علاقے میں آیا ہوا ہے۔ انہیں یہ اطلاع مقامی مخبروں کے ذریعے ملی تھی۔ فورسز نے اس علاقے کی بجلی اور انٹرنیٹ سپلائی معطل کر دی اور علاقے کا معاصرہ کر لیا۔ زمین کھودنے والی مشینیوں کے ذریعے گڑھے کھود کر نائیکو کے زیر زمین ٹھکانوں کو تلاشنے کا کام شروع کیا اور مقامی افراد کے گھروں کی تلاشی شروع کی گئی اور انہیں آگ لگانا شروع کر دی۔ ایسے میں حزب کمانڈر نے اپنے دو جان نثاروں سمیت محاصر دستوں پر فائر کھول دیا اور مقابلہ شروع کر دیا۔ فورسز نے ہر طرف سے گولیوں اور بموں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔مکمل بلیک آوٹ کے باوجود مقامی افراد اور نوجوان جمع ہونا شروع ہو گئے اور انہوں نے فوجی دستوں پر پتھراو شروع کر دیا۔ سیکورٹی اداروں نے مقامی افراد پر بھی فائرنگ کی اور پیلٹ گنوں سے انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ ان جھڑپوں میں تیس سے زائد نوجوان شدید زخمی ہو گئے۔
نائیکو نے ایک مکان میں پناہ لی ہوئی تھی۔ وہ مسلسل 18 گھنٹوں ڈٹا رہا اور سرنڈر کرنے کی پیشکش کا پیتل کی گولیوں سے جواب دیتا رہا۔ فوج نے گھیرا تنگ کر دیا اور بالاخر محمد بن قاسم اپنے دو ساتھی مجاہدوں کے ساتھ شہید ہو گیا۔
نائیکو کی شہادت پر لوگ گھروں سے باہر نکل آئے انہوں نے ہندوستانی افواج کے خلاف نعرے بازی اور پتھراو شروع کر دیا۔ حزب کماندار کی شہادت نے عالمی خبر رساں اداروں میں نمایاں سرخیاں بنائیں اور جہاں بھارت میں اس خبر پر جشن بنایا گیا وہیں تحریک کو برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک بار پھر سے جزبے کے تازہ کمک میسر آئی ہے۔ نائیکو پہلا نوجوان نہیں تھا جس نے ہتھیاروں کا راستہ اختیار کیا اور اس کے شہادت سے بے شمار دوسرے نوجوان اس کے نقش قدم پر چلنے کو سامنے آئیں گے۔
اگر کہیں طاقتوروں کو لگتا ہو کہ وہ بزور طاقت کسی با مقصد تحریک کو دبا دیں گے تو تاریخ کا سبق ہے کہ جس مومنٹ میں نوجوانوں کا تیز سرخ لہو شامل ہو جائے وہ ضرور اپنی منزل کو پہنچتی ہیں۔ برہان کے خون کی بوندیں سرفروشوں کی کھیتی پیدا کرنے کا بیج تھیں اور نائیکو جیسوں کی شہادت اس فصل کی آبیاری کا سامان۔ جب تک غاصبوں کا قبضہ برقرار رہے گا مزاحمت جاری رہے گی اور مزاحمت کب رکتی ہے۔ وقت گزرتا چلا جاتا ہے، ظلم بھی بڑھتا جاتا ہے مگر مزاحمتی جزبے جوان رہتے ہیں۔ یہ جزبے سروں کی قربانی مانگتے ہیں اور کشمیری مائیں قربان ہونے والے سر فروش نوجوان پیدا کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔
~عمار بیگ