سقوط حیدرآباد دکن اور مسلۂ کشمیر

  • بسم اللہ الرحمنj الرحیم

میں روزنامہ جنگ میں محترم نیّر زیدی صاحب کا برسوں پرانا “مکتوب واشنگٹن “ مورخہ ۴مارچ ۱۹۹۰ کالم بعنوان “کشمیر کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی رپورٹ “ پڑھ رہا تھا جس میں موصوف نے بتایا تھا کہ امریکی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ تسلیم کیا

ہوا ہے- لہذا یہ توقع رکھنا کہ امریکہ یا دنیا کے بڑے ممالک پاکستان کی مدد کریں گے، محض خام خیالی ہے-کشمیر اورفلسطین کے معاملات سے دنیا کے اہم ممالک کی حکومتیں پچھلے ستر سال بخوبی واقف ہیں لیکن انہوں نے بھارت اور اسرائیل کا کیا بگاڑ لیا؟

آئیں اس موقع پر سترہ ستمبر کے حوالے سے تاریخ کے ایک اور سیاہ باب کا بھی تذکرہ کرتے چلیں کہ زندہ اقوام تاریخ سے سبق سیکھتیں ہیں –

گیارہ ستمبر کو جب پاکستانی اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کے انتقال پر ملال کی خبر سن رہے تھے اور غم میں ڈوبے ہوے تھے عین اسوقت ہندو پاک کی آزاد ریاست حیدر آباد دکن پر پوری قوت سے حملہ کررہا تھا- بھارت نے موقع سے فائدہ اٹھا کر نظام حیدرآباد کی امیر ترین اور سب سے ترقی یافتہ ریاست پر شب خون مارا تھا اور جھوٹا بہانہ بنایا کہ نظام حیدرآباد کے لوگ ریاست کے ہندوں پر ظلم ڈھا رہے تھے اور ہم انہیں بچانے جارہے ہیں- بھارت نے اسے پولیس ایکشن کا نام دیا حالانکہ اسمیں بھارتی بری اور فضائی فوج نے بھرپور حصہ لیا تھا – نظام کی فوج بمقابلہ بھارت کی بہت کمزور تھی اور اس نے بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دئیے لیکن دشمن نے اسکے باوجود کم از کم ۲سے ۳ لاکھ مسلم مرد و خواتین کو قتل کیا – کنویں مسلمانوں کی نعشوں سےاٹ گئیے تھے- بھارت نے اسے آپریشن پولو کا بھی نام دیا- بھارت نے اس قتل عام کو چھپا کر رکھا – بعد ازاں پنڈت نہرو نے سندر لعل کمیشن ُ بنایا – اس کمیشن میں قتل عام کی تفصیل موجود تھی جو اتنی بھیانک تھی کہ اسے پبلک کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا گیا- کافی سالوں بعد اس میں کافی تحریف کرکے اسے ایک لائبریری میں رکھ دیا گیا- تحریف شدہ رپورٹ میں مسلم مقتولین کی تعداد گھٹا کر ۲۴ ہزار کردی گئی جبکہ بعض آزاد افراد اور اداروں کے مطابق مقتولین کی تعداد ۵ تا ۱۰ لاکھ کے درمیان تھی-

قارئین کرام شائد نہ جانتے ہوں کہ حیدرآباد دکن میں مشہور زمانہ عثمانیہ یونیورسٹی تھی جس میں میڈیکل اور انجنیئرنگ کی تعلیم بھی اردو میں دی جاتی تھی- بھارت کی اسلام دشمن دہشت گرد حکومت اردو کی اہمیت سے خوب واقف تھی، اسکی فوج نے عثمانیہ یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ۸۰ ہزار بیش قیمت اردو کتب کو نذر آتش کیا-

افسوس یہ ہے کہ ہمارا احساس زیاں جاتا رہا اور ہم اس عظیم سانحے کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں- حیدرآباد دکن میں ہندوں کی اکثریت تھی لیکن وہ مسلمانوں کے ساتھ امن و چین اور ترقی کی زندگی گزار رہے تھے- بھارت نے جونا گڑھ جس نے پاکستان کے ساتھ باقائدہ الحاق کیا ہوا تھا اور حیدرآباد دکن کی آزاد ریاست پر قبضے کا یہ بھی جواز بنایا تھا کہ وہاں ہندوں کی اکثریت تھی لہذا حکمرانوں کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جب کشمیر کا معاملہ آتا ہے تو وہ اس سے بھی مکر جاتا ہے – حالانکہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد ۹۰ فیصد کے لگ بھگ ہے-

ہمارا میڈیا بھی بدقسمتی سے جونا گڑھ اور حیدرآباد بھلا بیٹھا ہے- زندہ قومیں ہمیشہ اپنی تاریخ یاد رکھتی ہیں اور اپنی زبان اور اقدار کی حفاظت کرتی ہیں – جب ڈکٹیٹر مشرف سے کسی صحافی نے حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بڑی بے شرمی سے کہا کہ گڑھے مردے نہ اکھاڑیں – یہ جواب واجپائی یا مودی سے آتا تو قابل فہم تھا لیکن ایک پاکستانی “صدر” سے یہ نہ صرف قطعی ناقابل فہم ہے بلکہ انتہائی شرمناک بھی-

بھارت ہر سال ۱۷ ستمبر کو حیدر آباد دکن کی “آزادی” کا دن مناتا ہے- زندہ اقوام اپنا بے رحم تجزیہ کرتی ہیں، ہمیں بھی اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا ہوگا- یہ کڑا اور بے رحم احتساب ہی ہمیں سرخرو کرے گا- کسی نے سقوط ڈھاکہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا خوب کہا تھا کہ کاش کچھ لوگ وقت پر سچ بول دیتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا-

رسول پاک ص نے فرمایا ہے کہ سچ زندگی ہے اور جھوٹ موت! ہمیں سوچنا ہوگا کہ مسلم کمزور کیوں ہوئے اور کمزوری اور بزدلی کی کیا وجوہات تھیں- اگر معیشت اور تعلیم ہی طاقت کے فقط اسباب ہوتے تو حیدرآباد دکن کی ریاست کا یہ حشر نہ ہوتا کہ اسکا تعلیمی معیار دیگر تمام ریاستوں سے بہت بہتر تھا اور اسکی معیشت بھی ان سب سے بہت مظبوط تھی- پھر حال ہی میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ غریب طالبان نے بڑی بڑی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوادئیے-

اسلامی تاریخ میں بے شمار واقعات ہیں جب محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی رح جیسے جرنیلز نے اپنے سے کئی بڑی طاقتوں کو ہاش ہاش کردیا تھا- خالد بن ولیدرض، حضرت علی رض اور دیگر صحابہ رض کی جنگوں میں بھی بھی ہمیں یہ ہی نظر آتا ہے- سب سے بڑھ کر رسول پاک ص کی حیات طیبہ میں لڑی جانے والی غزوات میں بھی ہمیں یہ مناظر نظر آتے ہیں-

ہم نے اقوام متحدہ کی منافقت ہر جگہ دیکھی چاہے وہ فلسطین ہو یا بوسنیا یا کشمیر-ہمیں باقی دنیا سے امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہیں کہ مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا – بھارت لاتوں کا بھوت ہے وہ کبھی بھی باتوں سے باز نہیں آئیگا-

دہشت گردی کی مثال ڈاکو کا خنجر ہے جبکہ جہاد ڈاکٹر کا نشتر ہے- ڈاکٹر کا نشتر صرف کینسر کو نکالتا ہے- بھارت نے بہت سی اینٹیں ہم پر پھینک دی ہیں اور ہم ابھی تک پتھر ہی ڈھونڈ رہے ہیں-

۔

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s