اعوز باللہ من الشیطن الرجیم
بسمم اللہ الرحمن الرحیم
۔والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک۔ وبالاخرت ھم یوقنون
و: اور
الذین : وہ لوگ، جمع ہے ”الذی“ کی۔ ”الذی“: وہ ایک مرد، ا“لتی“ : وہ ایک عورت۔ ”الذین“ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں
”یومنون“ :مرکب لفظ ”ی ”اور ”امنون“ کا۔ ”ی ”کا مطلب ”وہ ”ہے۔ ”امن” کا مطلب “ایمان“ ہے اور ”ون“ جمع کے لیئے ہے۔ جیسے ”مومنون“، ”کافرون“ وغیرہ اگر پہلے ”حرف جر“ ہو تو پھر یہ ”مومنین ”اور ”کافرین“ ہوجایئگا۔
”بما“:” ب:“: ”ساتھ،“ ”پر ”ما ” جو
”انزل“ نازل کیا گیا۔ جڑ کا لفظ نزل
”الیک“ : الی (کی طرف) اور ”ک“ کا مرکب لفظ ہے۔ ۔ ”ک“ واحد حرفی لفظ ہے ٓجسکے معنی آپ یا تم یا تمھارا ہے ۔ الیک کا مطلب ہوا آپکی (ﷺ) طرف
وما : ”و“ اور ”ما“ کا مرکب لفظ ہے۔ ”و“ واحد حرفی لفظ ہے اس”کا مطلب ”اور“ ہے۔ ایک قسمیہ ”و“ بھی ہوتا ہے جیسے ”والعصر“ جسکی نشانی یہ ہے کہ اسکے بعد آنیوالے نام کے آخری حرف کے نیچے زیر آتی ہے۔ ”ما“ ۰جو، کیا اور نہیں۔ یہاں اسکا مطلب ”جو“ ہے
وما انزل: اور جو نازل کیا گیا
من قبلک: ”من“، ”قبل“ اور ”آپ“ کا مرکب لفظ ہے ( آپ ﷺ سے قبل
من: سے
قبلک : قبلک: جمع ہے ”قبل“ اور ”ک“ کا ۔(آپ سے قبل) یعنی آپ پر نازل کردہ قران مجید اور آ پ سے قبل اللہ تعالی کی جانب سے دیگر اتاری ہوئی کتب مثلا ، زبور، تورات اور انجیل وغیرہ تمام اللہ کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں
و: اور
بالاخرت: آخرت پر
“ھم: وہ : جمع ہے ”ہ“ کی یعنی ”وہ لوگ“
یوقنون: ”ی“ وہِ قنون: یقین سے ہے۔ یعنی وہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔
سورہ البقرہ کے آغاز میں اللہ تعالی نے بالکل واضح اور حتمی بتادیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی کسی طرح کا بھی شک نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کتاب کا مقصد ہدائت دینا ہے۔ لیکن ہر ایک کو نہیں، صرف انہیں جو خود برائی سے بچنا چاہتے ہوں ۔ یعنی متقین۔
اس آیت میں متقی کی تین خصوصیات بتائی گئیں ہیں۔ اسکے علاوہ تین اور خصوصیات جو اگلی آیات میں آیئں گے۔
یعنی قران مجید سے ہدائت کے لئے لازم ہے کہ بندہ یا بندی برائیوں سے بچنا چاہتے ہوں اور ایسے لوگ کون ہیں۔ انکی اہم خصوصیات اس آیت میں بیان کی گیئں ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ وہ غائب پر ایمان لاتے ہیں، یعنی وہ جانتے ہیں کہ انکا علم بہت ہی محدود ہے۔ وہ ہر چیز نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے بڑے سے بڑا کافر بھی نہیں جھٹلاسکتا۔ ہم مثلا وائرس نہیں دیکھ سکتے لیک وہ خطرناک ترین بیماریاں مثلا ہیپاٹائٹس اور ایڈز کرسکتاہے، بآولا کرسکتا ہے، ھیپاٹایٹس سے جگر خراب کرسکتا ہے۔ انسانی آنکھ ایک محدود روشنی کی شعائیں دیکھ سکتی ہیں، اسی طرح آواز کی بھی محدود لہریں ہم سن سکتے ہیں۔ ان سے زیادہ یا کم ہم نہیں سن سکتے۔ لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ میں صرف وہ مانوں گا جو میں دیکھ یا سن سکوں یا محسوس کرسکوں تو ایسے جاہل مطلق کے لیئے قران مجید بیکار ہے۔ اللہ، فرشتے، جنات اور بے شمار مخلوق ہمیں نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں ہیں۔ ہمار چاروں اطراف ہزاروں لوگ موبائیل پر باتیں کررہے ہوتے ہیں جنہیں ہم نہین سن سکتے جب تک کہ ہمارے پاس موبائیل نہ ہو اور وہ اس نمبر پرکنیکٹ نہ ہو یا ہزاروں ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات ہورہی ہوتی ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے بغیر ٹی وی ٹیون کیے ہوے۔
۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ یہ انسان کا پریکٹیکل ٹیسٹ ہے۔ اگر انسان آذان سن کر نماز نہ پڑھے اور مردوں کے قدم مسجد کی طرف نہ اٹھیں تو ہدائت طلب کرنے میں مخلص نہیں ہے اور اگر وہ مخلص نہیں ہے تو اللہ کو کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ دل سے ہدائت کا طالب نہ ہو اور اللہ اسے زبردستی ہدائت دے۔
۳۔ وہ جو رزق اللہ نے دیا ہے اسمیں سے خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ اپنے اہل وعیال پر بھی ہے اور ضرورتمند پر بھی۔ اسمیں غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں اور نیکی و ماحولیات اور معاشرے کے دیگر مفید کام بھی مثلا تعلیم، ریسرچ، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی۔ اسلام ایک سماجی اور انسانئت کا دین یعنی راستہ ہے۔ اس میں بالکل الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنی معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ جو چمڑی جایئے پر دمڑی نہ جایئے کی پالیسی اپناے ہوتے ہیں وہ بھی قران مجید کی ہدائت کے اہل نہیں
۴۔ وہ آپ پر نازل کی گئی ہدائت یعنی قران مجید اور سنت مطہرہ پر ایمان لاتے ہیں اور آپ سے پہلے جتنے اللہ کے سچے پیغمبر گزرے ہیں انپر نازل کی گئی ہدایات پر بھی ایمان لاتے ہیں کہ وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے تھیں۔ اسلام میں زمان اور مکاں کے لحاظ سے کوئی تعصب نہیں۔ محمد ﷺ اسلام کے آخری نبی اور رسول ہیں نہ کہ پہلے۔ پہلے نبی حضرت آد م ع تھے اور سارے انبیا مسلم تھے اور ان سب کا دین اسلام ہی تھا
۵۔ چونکہ رسول پاک محمد ﷺآخری نبی ہیں لہذا انکے بعد والی ہدائت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ آئت مبارک بھی ختم نبوت کی دلیل ہے
اور متقی کی آخری شرط انکا آخرت پر کامل ایمان ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ وہ شتر بے مہار نہیں، انہیں اپنے ہر عمل اور اپنے ہر قول کا جواب اللہ کو اس دن دینا ہے۔
جن لوگوں میں یہ چھ صفات موجود ہیں وہ ہی در حقیقت متقی ہیں اور ان ہی کے لیئے قران مجید ہدائت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلاصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ قران سے ہدائت کے لیے متقی ہونا لازمی ہے یعنی برائی سے بچنے کے جذبے کا ہونا
۔ متقی ہونے کے لیئے کئی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے جنمیں غائب پر ایمان، نماز قائم کرنا اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ رسول پاک ﷺ کی ہدائت یعنی قران مجید اور سنت مطہرہ پر کامل ایمان۔ نیز ان سے پہلے جتنے بھی اللہ کے سچے نبی گزرے ہیں انکی کتابوں اور ہدایات پر بھی کہ وہ اللہ کی طرف سے تھیں۔ اور یہ کہ وہ آخرت پر پکا یقین رکھتے ہیں۔ اگر یہ خصوصیات ہم میں نہیں ہیں تو فی تاکہ الفور اپنے اندر پیدا کرنا ہونگی اور اپنے اہل خانہ میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔
۔ ڑمضان مبارک کے روزوں کا ایک مقصد قران پاک (اور صاحب قران ﷺ) کے لیئے اللہ تعالی کا شکرانہ ہے۔ یعنی یہ Thanks Giving Fasts ہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم اس عظیم تحفے کا شکریہ تو ادا کریں اور وہ تحفہ جو ہماری دنیا اور آخرت بنانے والا ہے اسے استعمال ہی نہ کریں
الحمد للہ رب العلمین