سبق ۱۵
اعوز باللہ من الشیطن الرجیم
بسمم اللہ الرحمن الرحیم
الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوہ و مما رزقناھم ینفقون
الذین : وہ لوگ، جمع ہے ”الذی“ کی۔ ”الذی“: وہ ایک مرد، ا“لتی“ : وہ ایک عورت۔ ”الذین“ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں
”یومنون“ : جمع ہے ”ی ”اور ”امنون“ کی۔ ”ی ”کا مطلب ”وہ ”ہے۔ ”امن” کا مطلب ا“یمان“ ہے اور ”ون“ جمع کے لیئے ہے۔ جیسے ”مومنون“، ”کافرون“ وغیرہ اگر پہلے ”حرف جر“ ہو تو پھر یہ ”مومنین ”اور ”کافرین“ ہوجایئگا۔
”بالغیب:““:” ب:“ ”ساتھ،“ ”پر ”غیب ”جو نظر نہ آیئے، جسے حواس خمسہ سے کسی طور محسوس نہ کیا جاسکے
و : ”و“ واحد حرفی لفظ ہے اس”کا مطلب ”اور“ ہے۔ ایک قسمیہ ”و“ بھی ہوتا ہے جیسے ”والعصر“ جسکی نشانی یہ ہے کہ اسکے بعد آنیوالے نام کے آخری حرف کے نیچے زیر آتی ہے۔
یقیمون: ”ی“وہ۔ ”قیم:“ قائم کرتے ہیں ”ون“ جمع کے لیئے ۔ قائیم سے مراد باوقت باجماعت نماز ہے پورے آداب کے ساتھ۔ خواتین
الصلوہ: نماز
و: اور
مما: من اور ما کا مرکب لفظ ہے۔ من کا ن ”م“ سے بدلا گیا ۔ من: سے، ما: جو (ما کے دو اور مطلب بھی ہوتے ہیں وہ ہیں ”کیا“ اور“نہیں“ اسکا اندازہ جملے سے ہوجاتا ہے۔
رزقناھم: رزق : اردو میں بھی ہے۔ نا: ”ہم“ یا ”ہمارا“ ۔ ”ھم“ جمع ہے ”ھ“ کی اسک مطلب ہے ”وہ“ یا “”انہیں“ ۔ ”ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے ”
“ینفقون: ”ی“ اور ”نفق“ کا مرکب لفظ ہے۔ ”ون“ جمع کے لیئے ہے۔ ”وہ خرچ کرتے ہیں“
سورہ البقرہ کے آغاز میں اللہ تعالی نے بالکل واضح اور حتمی بتادیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی کسی طرح کا بھی شک نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اس کتاب کا مقصد ہدائت دینا ہے۔ لیکن ہر ایک کو نہیں، صرف انہیں جو خود برائی سے بچنا چاہتے ہوں ۔ یعنی متقین۔
اس آیت میں متقی کی تین خصوصیات بتائی گئیں ہیں۔ اسکے علاوہ تین اور خصوصیات جو اگلی آیات میں آیئں گے۔
یعنی قران مجید سے ہدائت کے لئے لازم ہے کہ بندہ یا بندی برائیوں سے بچنا چاہتے ہوں اور ایسے لوگ کون ہیں۔ انکی اہم خصوصیات اس آیت میں بیان کی گیئں ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ وہ غائب پر ایمان لاتے ہیں، یعنی وہ جانتے ہیں کہ انکا علم بہت ہی محدود ہے۔ وہ ہر چیز نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی سن سکتے ہیں، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے بڑے سے بڑا کافر بھی نہیں جھٹلاسکتا۔ ہم مثلا وائرس نہیں دیکھ سکتے لیک وہ خطرناک ترین بیماریاں مثلا ہیپاٹائٹس اور ایڈز کرسکتاہے، بآولا کرسکتا ہے، ھیپاٹایٹس سے جگر خراب کرسکتا ہے۔ انسانی آنکھ ایک محدود روشنی کی شعائیں دیکھ سکتی ہیں، اسی طرح آواز کی بھی محدود لہریں ہم سن سکتے ہیں۔ ان سے زیادہ یا کم ہم نہیں سن سکتے۔ لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ میں صرف وہ مانوں گا جو میں دیکھ یا سن سکوں یا محسوس کرسکوں تو ایسے جاہل مطلق کے لیئے قران مجید بیکار ہے۔ اللہ، فرشتے، جنات اور بے شمار مخلوق ہمیں نہ دکھائی دیتی ہے نہ سنائی لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں ہیں۔ ہمار چاروں اطراف ہزاروں لوگ موبائیل پر باتیں کررہے ہوتے ہیں جنہیں ہم نہین سن سکتے جب تک کہ ہمارے پاس موبائیل نہ ہو اور وہ اس نمبر پرکنیکٹ نہ ہو یا ہزاروں ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات ہورہی ہوتی ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے بغیر ٹی وی ٹیون کیے ہوے۔
۲۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ یہ انسان کا پریکٹیکل ٹیسٹ ہے۔ اگر انسان آزان سن کر نماز نہ پڑھے اور مردوں کے قدم مسجد کی طرف نہ اٹھیں تو ہدائت طلب کرنے میں مخلص نہیں ہے اور اگر وہ مخلص نہیں ہے تو اللہ کو کسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ دل سے ہدائت کا طالب نہ ہو اور اللہ اسے زبردستی ہدائت دے۔
۳۔ وہ جو رزق اللہ نے دیا ہے اسمیں سے خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ اپنے اہل وعیال پر بھی ہے اور ضرورتمند پر بھی۔ اسمیں غیر مسلم بھی شامل ہوسکتے ہیں اور نیکی و ماحولیات اور معاشرے کے دیگر مفید کام بھی مثلا تعلیم، ریسرچ، صحت، سڑکیں، ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی۔ اسلام ایک سماجی اور انسانئت کا دین یعنی راستہ ہے۔ اس میں بالکل الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنی معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ جو چمڑی جایئے پر دمڑی نہ جایئے کی پالیسی اپناے ہوتے ہیں وہ بھی قران مجید کی ہدائت کے اہل نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلاصہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ قران سے ہدائت کے لیے متقی ہونا لازمی ہے یعنی برائی سے بچنے کے جذبے کا ہونا
۲۔ متقی ہونے کے لیئے کئی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے جنمیں غائب پر ایمان، نماز قائم کرنا اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اگر یہ خصوصیات ہم میں نہیں ہیں تو فی الفور اپنے اندر پیدا کرنا ہونگی اور اپنے اہل خانہ میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔
۳۔ ڑمضان مبارک کے روزوں کا ایک مقصد قران پاک (اور صاحب قران ﷺ) کے لیئے اللہ تعالی کا شکرانہ ہے۔ یعنی یہ Thanks Giving Fasts ہیں۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم اس عظیم تحفے کا شکریہ تو ادا کریں اور وہ تحفہ جو ہماری دنیا اور آخرت بنانے والا ہے اسے استعمال ہی نہ کریں
الحمد للہ رب العلمین