آج انشاءاللہ تعالی هم سورہ الفاتحہ کی تین آیات کا ترجمہ کریں گے اور ان سے عربی زبان کے کچھ اصول سیکھیں گے۔
”الرحمن الرحیم“ ۔ یہ دو الفاظ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں بیان کیے جاچکے ہیں۔ ہم نے بتایا تھا کہ حرف جر ”ب“ کی وجہ سےالفاظ ”الرحمن اور الرحیم“ کے آخری حروف یعنی ”ن“ اور ”م“ کے پیش زیر میں تبدیل ہوگیے۔ ٰیہاں سورہ فاتحہ میں دوسری آیت میں بھی انپر زیر ہے! کیوں؟ یہاں انہیں کس نے زیر کیا۔ یہاں پر زیر ”للة“ کے ”ل“ نے کیا۔ ”ل“ نے نہ صرف ”اللة“ کے ھ کے پیش کو زیر میں بدلا بلکہ ”الرحمن اور الرحیم“ کے پیشوں کو بھی زیر میں بدل دیا۔
”الرحمن ” اور ”الرحیم““ کے شروع میں ”ال“ ہے جسکا مطلب ”تمام“ اور ”وہ، خاص“ ہے۔ .“آن“ مبلغے کا صیغہ ہے جسکا مطلب ہے بہت ہی زیادہ۔ یہ ”الرحمن“ اتنا زیادہ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے کہ یہ لفظ بغیر ”ال“ کے بھی رحمن کسی اور کا بھی نام نہیں ہوسکتا۔ اسکا یہ ”رحم ” انسانوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اور دیگر تمام مخلوقات میں جھلک رہا ہے۔ ”الرحیم“ ”آن“ کی طرح ”یم“ بھی مابلغے کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ البتہ ”الرحیم“ میں دائمی کا رنگ ہے۔ قیامت اور اسکے بعد اللہ تعالی کا رحم صرف مسلمانوں کے لیئے ہوگا چاہیے وہ مسلمان حضرت آد م ؑ کے ہوں یا کسی اور نبی ؑ کے اور امت محمد ﷺ کے مسلمان تو ہیں ہی ہیں۔
مالک یوم الدین میں ”مالک“ کا لفظ عربی سے اردو میں آیا ہے ۔ اسی طرح ”یوم“ کا لفظ بھی عربی سے اردو میں آیا ہے۔ یوم کا مطلب ”دن“ ہے۔ ”الدین“ ”ال“ اور ”دین“ کا مرکب لفظ ہے۔ چونکہ حرف ”د“، حرف ”ر“ کی طرح شمسی حرف ہے لہذا اسمیں ”ال“ کا ”ل“ نہیں پڑہا جاتا بلکہ ”د“ دو دفعہ پڑہا جاتا ہے، ”م ” ”د“ سے براہ راست مل جاتا ہے اور ”ا“ پڑہنے میں ”ڈراپ“ ہوجاتا ہے۔ ان تبدیلیوں سے بہت اختصار اور خوبصورتی پیدا ہوجاتی ہے۔ ”دین“ کے دو مطلب ہیں ایک تو اردو والا دین یعنی زندگی کا راستہ مثلا دین اسلام۔ دین کا دوسرا مطلب وہ ہے جو اردو میں ”لین دین“ میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں دوسرا مطلب ہی مراد ہے۔ ”وہ تمام د ن“ ”یعنی قیامت کا دن جب سب کو انکے اعمال کا بدلہ دیا جایئگا۔ اسی لیے اسے بدلے کا د ن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس سورہ میں اللہ تعالی کی ”رب“، ”رحمن“ اور ” ”رحیم“ کے بعد اگلی صفت بندہ بیان کرتا\کرتی ہے۔ یعنی اس روز تمام اقتدار حتی کے بندوں کا اقتدار انکے اپنے اعضاء پر بھی ختم ہوجایئے گا۔ اللہ صرف الرحمن اور الرحیم ہی نہیں بلکہ وہ مالک یوم الدین بھی ہے اور اسکی گرفت اور پکڑ بھی نہایت ہی سخت ہے۔
چوتھی آیت بندے کی طرف سے بے انتہا اہم عہد ہے۔ اگر یہ عہد منظور نہیں تو آگے نماز پڑہنا بالکل بیکار ہے۔ اس عہد کے بعد ہی بندے اللہ تعالی سے ہدائت کے لیئے دعاء کرسکتے ہیں۔
”ایاک نعبد و ایاک نستعین“ میں ”ایا“ کا مطلب ہوتا ہے ”صرف“۔ ”ک“ واحد حرفی لفظ ہے۔ اسکے معنی ”آپ“ یا ”آپکی“ ہیں۔ ”ن“ واحد حرفی لفظ ہے جسکا مطلب ”ہم“ ہے زمانہ حال اور مستقبل (مضارع) میں۔ جیسے ”ا“ کا مطلب ”میں“، ”ت“ کا ”تم“ اور“ی“ کا ”وہ“ ہے۔ ”ایاک“ کا مطلب ہوا ”صرف تیری “ ”یا صرف تجھ سے“ ۔ ”عبد“ کا مطلب ”عبادت اور بندگی“ ہے۔ اسی سے ”عبد اللہ“ اور ”عباداللہ“ وغیرہ ہیں۔ .ایاک نعبد کا مطلب ہے ”ہم صرف تیری ہی بندگی اور عبادت کرتے ہیں“۔
”و“ بھی واحد حرفی لفظ ہے جسکا مطلب ”اور“ کا پے۔ یہ اردو میں ”او“ کرکے پڑہا جاتا ہے جیسے ”بلند و بالا اور حسین و جمیل“ ۔ عربی میں ”و“ زبر کے ساتھ پڑہا جاتا ہے۔
”و“ کا ایک اور مطلب بھی ہے وہ ہے ”قسم“ جیسے والعصر“۔ اسکا ذکر ہم انشاءاللہ تعالی الگ سے کریں گے۔ یہاں ”و“ سے مراد ”اور“ ہے۔
نستعین دو الفاظ پر مشتمل ہے۔ ”ن“ یعنی ”ہم ” اور ”ستعین“ جسکا مطلب ہے ”مدد مانگنا“ ۔ ”ایاک نستعین“ کا مطلب ہے“ہم صرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کی بندگی و عبادت کرنا اور اللہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگنا اس اہم ترین عہد کی صریح خلاف ورزی ہوتی ہےجو اگے نماز کی روح کو ختم کردیتا ہے۔ پھر نماز پڑہنا یا نہ پڑہنا برابر ہوجاتا ہے۔ اسی لیئے اس عہد کو سورہ فاتحہ کے وسط میں رکھا گیا اور اسی لیے اسے ہر رکعت کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔ ہمیں یہ عہد ہر وقت یاد رکھنا چاہیئے کہ اسکے بغیر اللہ سے مدد نہیں مانگی جاسکتی۔ دیگر دعاوں کے لیئے بھی یہ پسند کیا گیا ہے کہ ان سے پہلے بھی سورہ الفاتحہ پڑہی جایئے۔
**************** خلاصہٰٰٰٰ*****************
سورہ الفاتحہ ایک باقائدہ درخواست ہے جسکا جواب قران مجید ہے۔ ہر نماز میں پڑہی جانیوالا قران مجید بھی اسکا فوری جواب ہے۔
اسکی شروع کی تین آیات اللہ تعالی کی تعریف ہیں
درمیان کی آئت ایک اہم ترین مظبوط عہد ہے کہ ”ہم صرف تیری (اللہ) ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ (اللہ سے) ہی مدد مانگتے ہیں۔
”ست“ میں مانگننے کا رنگ ہےجیسے نستعین (ہم مدد مانگتے ہیں) نماز استسقی (پانی مانگنا)، مستشفی (شفا مانگننے کی جگہ یعنی اسپتال)
”ایا“ کا مطلب ”صرف“ ، ک واحد حرفی لفظ ہے جسکا مطلب ”آپ“ ہے۔
آج کے لیئے اتنا ہی ۔ انشاءاللہ تعالی کل اگلی دو آیات کا ترجمہ کرینگے اور مزید عربی سیکھیں گے۔ اللہ حافظ
درمیان کی آئت ایک اہم ترین مظبوط عہد ہے کہ ”ہم صرف تیری (اللہ) ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ (اللہ سے) ہی مدد مانگتے ہیں۔
سورہ الفاتحہ ایک باقائدہ درخواست ہے جسکا جواب قران مجید ہے۔ ہر نماز میں پڑہی جانیوالا قران مجید بھی اسکا فوری جواب ہے۔
”ایا“ کا مطلب ”صرف“ ، ک واحد حرفی لفظ ہے جسکا مطلب ”آپ“ ہے۔